اردو شاعری کا مکمل خزانہ
مشہور شعرا کی پوری غزلیں اور نظمیں – Awaz-e-Karachi
شکوہ (مکمل)
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں
نالہ بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرأتِ آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
ہائے! وہ عیشِ کہانی جو میرا دستِ طلب
تھا کہ ہر ذرہ غذا تھا مرے قوتِ جذب
اب اٹھائے بھی نہیں جاتے ہیں بےمہرِ سحر
وہ جو ایک خواب تھا کیا، وہ جو ایک خواب تھا
فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں
نالہ بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرأتِ آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
ہائے! وہ عیشِ کہانی جو میرا دستِ طلب
تھا کہ ہر ذرہ غذا تھا مرے قوتِ جذب
اب اٹھائے بھی نہیں جاتے ہیں بےمہرِ سحر
وہ جو ایک خواب تھا کیا، وہ جو ایک خواب تھا
سارے جہاں سے اچھا (مکمل)
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہاں ہم ہی کو دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسمان کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہاں ہم ہی کو دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسمان کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
ہزاروں خواہشیں ایسی (مکمل غزل)
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بےآبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرزِ قد پر میں کچھ اور نہ کچھ ہو جائے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بےآبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرزِ قد پر میں کچھ اور نہ کچھ ہو جائے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے (مکمل)
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زباں رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زباں رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
رنجش ہی سہی (مکمل)
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
پہلے سے مراسیم نہ سہی پھر بھی کوئی پل
مل بیٹھتے ہیں بتایا کر کوئی پل تو کیا ہے
اب تو میرے سوا کوئی اور بھی ہے تیرے دل میں
کس کو دیکھوں کہاں جاؤں بتا کوئی پل تو کیا ہے
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
پہلے سے مراسیم نہ سہی پھر بھی کوئی پل
مل بیٹھتے ہیں بتایا کر کوئی پل تو کیا ہے
اب تو میرے سوا کوئی اور بھی ہے تیرے دل میں
کس کو دیکھوں کہاں جاؤں بتا کوئی پل تو کیا ہے
مجھ سے پہلی سی محبت (مکمل)
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم تیرے جہاں کی تو خبر کیا رکھے
اب کہاں جائیں کہ دنیا میں کوئی راز نہ رہا
تیرے درد کے سوا کوئی درد نہ رہا
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم تیرے جہاں کی تو خبر کیا رکھے
اب کہاں جائیں کہ دنیا میں کوئی راز نہ رہا
تیرے درد کے سوا کوئی درد نہ رہا
ہم دیکھیں گے (مکمل)
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جب جس کا وعدہ ہے
ہم دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جب جس کا وعدہ ہے
ہم دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے
کوئی امید بر نہیں آتی (مکمل)
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کے ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کے ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحرا میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بےوجہ قرار آ جائے
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحرا میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بےوجہ قرار آ جائے
اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملے
اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملے
جیسے سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملے
دل تو چاہے کہ ترے خواب میں کھو جاؤں کبھی
خواب میں بھی تو ملے تو خوبصورت ہو جائے
جیسے سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملے
دل تو چاہے کہ ترے خواب میں کھو جاؤں کبھی
خواب میں بھی تو ملے تو خوبصورت ہو جائے